تمام شہر میں ہے عام کاروبار ہوس
کہ چہرے چہرے پہ چسپاں ہے اشتہار ہوس
ابھی رگوں میں ہے تلخیٔ اعتبار ہوس
بدن میں ٹوٹ رہا ہے ابھی خمار ہوس
جو چل پڑے ہو تو انجام گمرہی سے ڈرو
سپرد خاک نہ کر دے یہ رہ گزار ہوس
ہوا ہے گرم نہ کمرے کی کھڑکیاں کھولو
نہ جانے شہر میں ٹھہرے کہاں غبار ہوس
فرار خواہش ہستی سے جب نہیں ممکن
نفس کی قید کہیں یا اسے حصار ہوس

غزل
تمام شہر میں ہے عام کاروبار ہوس
رئیس الدین رئیس