تمام شہر کی خاطر چمن سے آتے ہیں
ہمارے پھول کسی کے بدن سے آتے ہیں
ہم ان لبوں سے لگا کر رہیں گے لب اپنے
سخن تمام اسی انجمن سے آتے ہیں
پڑا ہوں اس کے بدن کے بدیس میں کب سے
میں کیا پڑھوں جو یہ نامے وطن سے آتے ہیں
کہ جیسے تپتا توا اور بوند پانی کی
زمیں پہ ہم بھی اسی طرح چھن سے آتے ہیں
ہم آپ بیتی سناتے ہیں سادہ لفظوں میں
یہ سارے شعر ہمیں ترک فن سے آتے ہیں
زمانے بھر سے ہے احساسؔ جی کی چال الگ
ہر ایک بزم میں وہ بد چلن سے آتے ہیں
غزل
تمام شہر کی خاطر چمن سے آتے ہیں
فرحت احساس