تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر
وفا کو آ ہی گئی نیند رات ڈھلنے پر
جو سب کا دوست تھا ہر انجمن کی رونق تھا
کل اس کی لاش ملی اس کے گھر کے ملبے پر
وہ ذوق فن ہو کہ شاخ چمن کہ خاک وطن
ہر اک کا حق ہے مرے خوں کے قطرے قطرے پر
حقیقتیں نظر آئیں تو کس طرح ان کو
تعصبات کی عینک ہے جن کے چہرے پر
چمن میں یوں تو تھے کچھ اور آشیاں لیکن
گری جو برق تو میرے ہی آشیانے پر
کرم مجھی پہ تھا سب باغبان و گلچیں کا
کسی نے قید کیا اور کسی نے نوچے پر
یہ دشت حزن ہے کرب و بلا کا صحرا ہے
چلے گا کون یہاں اب وفاؔ کے رستے پر
غزل
تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر
وفا ملک پوری