EN हिंदी
تمام قضیہ مکان بھر تھا | شیح شیری
tamam qaziya makan bhar tha

غزل

تمام قضیہ مکان بھر تھا

راشد جمال فاروقی

;

تمام قضیہ مکان بھر تھا
مکان کیا تھا مچان بھر تھا

یہ شہر لا حد و سمت میرا
گلوب میں اک نشان بھر تھا

روایتوں سے کوئی تعلق
جو بچ رہا پان دان بھر تھا

گمان بھر تھے تمام دھڑکے
تمام ڈر امتحان بھر تھا

طمانیت بارشوں میں حل تھی
جو خوف تھا سائبان بھر تھا

جو جست تھی ایک مشت بھر تھی
جو شور تھا آسمان بھر تھا