EN हिंदी
تمام حسن و معانی کا رنگ اڑنے لگا | شیح شیری
tamam husn-o-maani ka rang uDne laga

غزل

تمام حسن و معانی کا رنگ اڑنے لگا

فیض خلیل آبادی

;

تمام حسن و معانی کا رنگ اڑنے لگا
کھلی جو دھوپ تو پانی کا رنگ اڑنے لگا

اشارا کرتی ہیں چہرے کی جھریاں چپ چاپ
تو کیا بدن سے جوانی کا رنگ اڑنے لگا

جدید رنگ میں آیا جو مصرع اولیٰ
حسد سے مصرع ثانی کا رنگ اڑنے لگا

کتاب زیست کے مفہوم کو سمجھتے ہی
یہاں بڑے بڑے گیانی کا رنگ اڑنے لگا

جو دائمی تھا وہی رہ گیا ہے ذہنوں میں
جو عارضی تھا کہانی کا رنگ اڑنے لگا

مری نظر سے ملی فیضؔ جب نظر اس کی
تو میرے دشمن جانی کا رنگ اڑنے لگا