تمام گلیوں میں ماتم بپا تھا جنگل کا
یہاں ضرور کوئی سلسلہ تھا جنگل کا
لکھی تھیں وحشتیں صحرا کی میری آنکھوں میں
کتاب دل میں ورق کھل رہا تھا جنگل کا
ہمارے شہروں میں اب روز ہوتا رہتا ہے
وہ واقعہ جو کبھی واقعہ تھا جنگل کا
وہ اس طرف کی پہاڑی پہ میٹھے جھرنے تھے
پہ درمیان میں رستہ گھنا تھا جنگل کا
مجھ ایک شہر میں ایسا بھی تھا اداس کوئی
ہمیشہ مجھ سے پتہ پوچھتا تھا جنگل کا
کسی کے ساتھ نے انساں بنا دیا ہے اسے
وگرنہ دل یہ کبھی بھیڑیا تھا جنگل کا
جہاں پہ ختم تھی انسانیت کی حد اطہرؔ
وہاں پہ دیکھا تو اک راستہ تھا جنگل کا
غزل
تمام گلیوں میں ماتم بپا تھا جنگل کا
مرزا اطہر ضیا