EN हिंदी
تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے | شیح شیری
tamam abr pahaDon pe sar paTakte rahe

غزل

تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے

نواز عصیمی

;

تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے
غریب دہکاں کے آنسو مگر ٹپکتے رہے

تمام موسم بارش اسی طرح گزرا
چھتیں ٹپکتی رہیں اور مکیں سسکتے رہے

نہارنے کے لیے جب نہ مل سکا منظر
ہم اپنی سوختہ سامانیوں کو تکتے رہے

مکان اشکوں کے سیلاب میں ٹھہر نہ سکے
مکین پلکوں کی شاخیں پکڑ لٹکتے رہے

وو ہم پہ برف کا طوفان بن کے ٹوٹ پڑا
ہم اپنے آپ میں شعلہ بنے بھبھکتے رہے

امیر لوگوں کی بستی میں کوئی در نہ کھلا
غریب لوگ ہر اک در پہ سر پٹکتے رہے

نوازؔ لقمے پہ لقمہ دیا ہے ہم نے مگر
محبتوں کی تلاوت میں وو اٹکتے رہے