EN हिंदी
ٹلنے کے نہیں اہل وفا خوف زیاں سے | شیح شیری
Talne ke nahin ahl-e-wafa KHauf-e-ziyan se

غزل

ٹلنے کے نہیں اہل وفا خوف زیاں سے

سیماب ظفر

;

ٹلنے کے نہیں اہل وفا خوف زیاں سے
یہ بحث مگر کون کرے اہل‌ زماں سے

رگ رگ میں رواں بحر فغاں چڑھ گیا لیکن
ویرانیٔ جاں کم تو ہوئی ذکر بتاں سے

روغن نہ سفیدی نہ مرمت سے ملے گا
اک پاس مراتب کہ گیا سب کے مکاں سے

آزار و مصیبت سے علاقہ ہے پرانا
رشتہ ہے قدیمی مرا فریاد و فغاں سے

گھاؤ بھی ذرا تاک کے یاروں نے لگائے
کچھ دل کو بھی نسبت تھی بہت نوک سناں سے

اک گوشۂ دل اس کو دکھانے کا نہیں یہ
محرم نہیں کرنا اسے اک سر نہاں سے

سرسبز رہے زخم جنوں جس کی بدولت
اک ربط تو قائم ہے عدوئے دل و جاں سے