EN हिंदी
تلخیاں رہ جائیں گی لفظ وفا رہ جائے گا | شیح شیری
talKHiyan rah jaengi lafz-e-wafa rah jaega

غزل

تلخیاں رہ جائیں گی لفظ وفا رہ جائے گا

حسن نظامی

;

تلخیاں رہ جائیں گی لفظ وفا رہ جائے گا
درمیاں اخلاص کے پھر اک خلا رہ جائے گا

حادثات زندگی پر غور کرنا چاہئے
چھوٹ جائے گا نوالہ سب پڑا رہ جائے گا

آنگنوں کے درمیاں دیوار جو اٹھ جائے گی
دھوپ میں اپنا کوئی باہر کھڑا رہ جائے گا

دن کے ہنگامے میں گم ہو جائے گا میرا وجود
آئنہ میں مجھ سا کوئی دوسرا رہ جائے گا

اس مسافت کی کبھی تکمیل ممکن ہی نہیں
آنے جانے کا فقط اک سلسلہ رہ جائے گا

دیکھ کر مکروہ سازش گاؤں کی دہلیز تک
سوچتا ہوں میں نظامیؔ کیا بچا رہ جائے گا