EN हिंदी
تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی | شیح شیری
talKH-tar aur zara baada-e-safi saqi

غزل

تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی

عزیز حامد مدنی

;

تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی
میرے سینے میں خس و خار ہیں کافی ساقی

ظلمت و نور کو پیالوں میں سمو دیتی ہے
شام پڑتے ہی تری چشم غلافی ساقی

زہر کا جام ہی دے زہر بھی ہے آب حیات
خشک سالی کی تو ہو جائے تلافی ساقی

نشۂ مے سے ذرا زخم کے ٹانکے ٹوٹے
تا ابد سلسلۂ سینہ شگافی ساقی

زندگانی کا مرض کم نہیں ہونے پاتا
یہ مرض کم نہ ہو اللہ ہے شافی ساقی

کاٹ دی گردش ایام کی زنجیر اس نے
کون ہے گردش مینا کے منافی ساقی

اک کف جو ہے متاع خرد و سکۂ ہوش
جام مے دے کہ یہ عالم ہے اضافی ساقی