تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی
میرے سینے میں خس و خار ہیں کافی ساقی
ظلمت و نور کو پیالوں میں سمو دیتی ہے
شام پڑتے ہی تری چشم غلافی ساقی
زہر کا جام ہی دے زہر بھی ہے آب حیات
خشک سالی کی تو ہو جائے تلافی ساقی
نشۂ مے سے ذرا زخم کے ٹانکے ٹوٹے
تا ابد سلسلۂ سینہ شگافی ساقی
زندگانی کا مرض کم نہیں ہونے پاتا
یہ مرض کم نہ ہو اللہ ہے شافی ساقی
کاٹ دی گردش ایام کی زنجیر اس نے
کون ہے گردش مینا کے منافی ساقی
اک کف جو ہے متاع خرد و سکۂ ہوش
جام مے دے کہ یہ عالم ہے اضافی ساقی
غزل
تلخ تر اور ذرا بادۂ صافی ساقی
عزیز حامد مدنی