EN हिंदी
تلخؔ سنا ہے جی ترا عرصہ ہوا نڈھال ہے | شیح شیری
talKH suna hai ji tera arsa hua niDhaal hai

غزل

تلخؔ سنا ہے جی ترا عرصہ ہوا نڈھال ہے

منموہن تلخ

;

تلخؔ سنا ہے جی ترا عرصہ ہوا نڈھال ہے
خود سے ذرا نکل کے دیکھ ایک سا سب کا حال ہے

سامنے آ گیا وہ جب کر گئے در گزر اسے
اب یہ تلاش ہے عبث میرا یہی خیال ہے

راہ تکے گا کیا کوئی آ بھی سکے گا کیا کوئی
چل پڑیں یا رکے رہیں سوچنا تک محال ہے

وقت شکن کوئی کہاں وقت کے ہاتھ پڑ گیا
اس کا نہ کچھ حساب ہے اور نہ کوئی مثال ہے

اپنی ہر ایک چال پر تم جو رہے ہو خندہ زن
مات ہے دیکھتے ہو کیا آؤ تمہاری چال ہے

رد و قبول تیرا حق رد عمل ہمارا حق
ایک بھی ملتجی نہیں سب کی نظر سوال ہے

تلخؔ میں اس کا آج تک ڈھونڈ نہیں سکا جواز
دل کو یہ کیا سکون ہے اور یہ کیا ملال ہے