تلاش میں نے زندگی میں تیری بے شمار کی
جو تو نہیں ملا تو تجھ سی شکل اختیار کی
تقاضہ کرنے موت آئی تب مجھے پتہ لگا
ابھی تلک میں لے رہا تھا سانس بھی ادھار کی
تھی سرد یاد کی ہوا میں دشت میں تھا ماضی کے
نہ پوچھئے جناب میں نے کیسے رات پار کی
تمام شب گزر گئی بس ایک اس امید میں
پلٹ کے آئے گی صدا کبھی تو اس پکار کی
ٹھٹھر رہے ہیں کیوں بھلا خدا کے ہی تو ہم بھی ہیں
چلو اٹھا کے اوڑھ لیں وہ چادریں مزار کی
جلا دیں میں نے ذہن کی کتابیں ساری اس لئے
کہ داستان تھی سبھی میں اس کے انتظار کی
بکھیرتی ہے شب مجھے سمیٹ لیتی ہے سحر
میں چاہتا ہوں ختم ہو یہ جنگ بار بار کی
مجھے غرور توڑنا تھا موج کا اسی لیے
اتر پڑا میں ناؤ سے بدن سے ندی پار کی

غزل
تلاش میں نے زندگی میں تیری بے شمار کی
عمران حسین آزاد