تکمیل شباب چاہتا ہوں
ہو جاؤں خراب چاہتا ہوں
سر معرکۂ الم ہے کرنا
تھوڑی سی شراب چاہتا ہوں
اپنی ہی لطافت نظر کی
اس رخ پہ نقاب چاہتا ہوں
ہو خیر محبتوں کی یا رب
ظالم سے جواب چاہتا ہوں
ہاں اے غم عشرت گذشتہ
اک فرصت خواب چاہتا ہوں
اس چھیڑ پہ زندگی تصدق
بے وجہ عتاب چاہتا ہوں
وہ مجھ سے سوال کر رہے ہیں
میں ان سے جواب چاہتا ہوں
کچھ ایسی حقیقتیں ہیں جن کو
پابند حجاب چاہتا ہوں
غزل
تکمیل شباب چاہتا ہوں
شکیل بدایونی