EN हिंदी
تختۂ مشق ستم مجھ کو بنانے والا | شیح شیری
taKHta-e-mashq-e-sitam mujhko banane wala

غزل

تختۂ مشق ستم مجھ کو بنانے والا

احمد علی برقی اعظمی

;

تختۂ مشق ستم مجھ کو بنانے والا
تھا وہی روز مرے خواب میں آنے والا

منتشر کر دیا شیرازۂ ہستی جس نے
خانۂ دل کو مرے تھا وہ سجانے والا

روز کرتا رہا وہ وعدۂ فردا مجھ سے
عمر بھر عہد وفا تھا جو نبھانے والا

اس نے منجدھار میں کشتی کو مری چھوڑ دیا
تھا جو طوفان حوادث سے بچانے والا

پہلے کرتا تھا پس پردہ مری بیخ کنی
کامیابی کا مری جشن منانے والا

سابقہ جس سے پڑا مصلحت اندیش تھا وہ
''دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا''

مار ڈالے نہ یہ تنہائی کا احساس مجھے
منتظر جس کا تھا اب وہ نہیں آنے والا

جس سے دل جوئی کی امید تھی نکلا وہ رقیب
جس کو دیکھو ہے وہی مجھ کو ستانے والا

عیش و عشرت کے سدا خواب دکھاتا تھا اسے
غمزہ و ناز سے برقیؔ کو لبھانے والا