EN हिंदी
تخلیق کائنات دگر کر سکے تو کر | شیح شیری
taKHliq-e-kaenat digar kar sake to kar

غزل

تخلیق کائنات دگر کر سکے تو کر

بشیر فاروق

;

تخلیق کائنات دگر کر سکے تو کر
پیدا خود اپنے شام و سحر کر سکے تو کر

پھولوں میں شب گزارنا مشکل نہیں کوئی
کانٹوں پہ کوئی رات بسر کر سکے تو کر

اچھا نہیں کسی کی تمنا سے کھیلنا
اچھا یہی ہے اس سے حذر کر سکے تو کر

ہر اشک خوں ہے مخزن سرمایۂ حیات
ہر اشک خوں کو لعل و گہر کر سکے تو کر

تارے مراحل سفر شوق ہی سہی
تاروں کو بھی شریک سفر کر سکے تو کر

عقل و خرد کے مرحلے طے کر لیے تو کیا
وہم و گماں کے معرکے سر کر سکے تو کر

فاروقؔ یہ بہار چمن پھر نہ آئے گی
یاران مے کدہ کو خبر کر سکے تو کر