تخلیق کائنات دگر کر سکے تو کر
پیدا خود اپنے شام و سحر کر سکے تو کر
پھولوں میں شب گزارنا مشکل نہیں کوئی
کانٹوں پہ کوئی رات بسر کر سکے تو کر
اچھا نہیں کسی کی تمنا سے کھیلنا
اچھا یہی ہے اس سے حذر کر سکے تو کر
ہر اشک خوں ہے مخزن سرمایۂ حیات
ہر اشک خوں کو لعل و گہر کر سکے تو کر
تارے مراحل سفر شوق ہی سہی
تاروں کو بھی شریک سفر کر سکے تو کر
عقل و خرد کے مرحلے طے کر لیے تو کیا
وہم و گماں کے معرکے سر کر سکے تو کر
فاروقؔ یہ بہار چمن پھر نہ آئے گی
یاران مے کدہ کو خبر کر سکے تو کر
غزل
تخلیق کائنات دگر کر سکے تو کر
بشیر فاروق