تخلیق بے ثبات کا ذرہ نظیر ہوں
ساحل کی ریت پر کوئی لکھی لکیر ہوں
گردش ہے زندگی مری منزل رسا نہیں
مصروف کار کوہ کن اک جوئے شیر ہوں
مال و متاع و ثروت جاں کچھ مرا نہیں
ہاں گردش زماں نے دکھایا فقیر ہوں
زندان دہر ہے مجھے اک قصر دلفریب
اپنی ہی خواہشات کا ایسا اسیر ہوں
جتنا نکلنا چاہا تھا اتنا الجھ گیا
گرداب زندگی کا میں یوں پائے گیر ہوں
مجھ سے جہاں میں آئے اور آ کر چلے گئے
پھر کیوں سمجھ رہا ہوں کہ میں بے نظیر ہوں
اچھا ہوا کہ یاد تو آیا ہے آخرش
اس بے خودی میں بھول گیا تھا حقیرؔ ہوں

غزل
تخلیق بے ثبات کا ذرہ نظیر ہوں
حقیر جہانی