تخئیل کا در کھولے ہوئے شام کھڑی ہے
گویا کوئی تصویر خیالوں میں جڑی ہے
ہر منظر ادراک میں پھر جان پڑی ہے
احساس فراواں ہے کہ ساون کی جھڑی ہے
ہے وصل کا ہنگام کہ سیلاب تجلی
طوفان ترنم ہے کہ الفت کی گھڑی ہے
تہذیب الم کہیے کہ عرفان غم ذات
کہنے کو تو دو لفظ ہیں ہر بات بڑی ہے
سایہ ہو شجر کا تو کہیں بیٹھ کے دم لیں
منزل تو بہت دور ہے اور دھوپ کڑی ہے
سینے پہ مرے وقت کا یہ کون گراں ہے
نیزے کی انی یا کہ کلیجے میں گڑی ہے
وہ میری ہی گم گشتہ حقیقت تو نہیں ہے
رستے میں کئی روز سے شے کوئی پڑی ہے
ہر لحظہ پروتی ہوں بکھر جاتے ہیں ہر بار
لمحات گریزاں ہیں کہ موتی کی لڑی ہے
ہم اور خدا کا بھی یہ احسان اٹھاتے
انسان ہیں کچھ ایسی ہی بات آن پڑی ہے
غزل
تخئیل کا در کھولے ہوئے شام کھڑی ہے
زاہدہ زیدی