تکلف چھوڑ کر میرے برابر بیٹھ جائے گا
تصور میں ابھی وہ پاس آ کر بیٹھ جائے گا
در و دیوار پر اتنا پڑا ہے سارے دن پانی
اگر کل دھوپ بھی نکلے گی تو گھر بیٹھ جائے گا
اڑے گا خود تو لائے گا خبر سات آسمانوں کی
اڑایا تو پرندہ چھت کے اوپر بیٹھ جائے گا
نہ منزل کو پتا ہوگا نہ رستوں کو خبر ہوگی
مسافر ایک دن آرام سے گھر بیٹھ جائے گا
خیال اچھا ہوا تو شعر بن کر آئے گا باہر
بہت اچھا ہوا تو دل کے اندر بیٹھ جائے گا
غزل
تکلف چھوڑ کر میرے برابر بیٹھ جائے گا
شجاع خاور