تجربہ جو بھی ہے میرا میں وحی لکھتا ہوں
میں تصور کے بھروسے پہ نہیں بیٹھا ہوں
جب میں باہر سے بڑا سخت نظر آؤں گا
تم سمجھنا کہ میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوں
جس کی خوشبو مجھے مسمار کیا کرتی ہے
میں اسی قبر پہ پھولوں کی طرح کھلتا ہوں
بارہا جسم نے پھر ذہن نے بیچا ہے مجھے
کیا میں قدرت کی دکانوں میں رکھا سودا ہوں
میرا ٹوٹا ہوا چشمہ ہی بھروسہ ہے مرا
اپنی آنکھوں سے اپاہج میں کوئی بچہ ہوں
ڈوبتا دیکھ رہا ہوں میں خودی میں خود کو
دل کی اک بنچ پہ بیٹھا ہوا میں ہنستا ہوں

غزل
تجربہ جو بھی ہے میرا میں وحی لکھتا ہوں
تری پراری