تجلیوں سے اندھیروں کی جنگ جاری ہے
اجالے سرخ رو ہوں یہ دعا ہماری ہے
جہاں پہ کل تھا گلستاں وہ آج مقتل ہے
فلک خموش ہے پھر دیکھیں کس کی باری ہے
سر نیاز جھکانا محبتیں دینا
یہ بزدلی نہیں دراصل خاکساری ہے
رہ جمود سے نفرت اڑان کی خواہش
حقیقتاً یہ ضرورت ہے جاں نثاری ہے
یہ گلستاں ہے ہماری ریاضتوں کا ثمر
اسے سنوارنے میں سب کی حصہ داری ہے
غزل
تجلیوں سے اندھیروں کی جنگ جاری ہے
محمد اظہر شمس