EN हिंदी
طے نیم جاں کا آج بھی جھگڑا نہ ہو سکا | شیح شیری
tai nim-jaan ka aaj bhi jhagDa na ho saka

غزل

طے نیم جاں کا آج بھی جھگڑا نہ ہو سکا

نور جہاں ناز

;

طے نیم جاں کا آج بھی جھگڑا نہ ہو سکا
تجھ سے ستم بھی اے ستم آرا نہ ہو سکا

جب درد دل کا تم سے مداوا نہ ہو سکا
پھر کچھ بھی تم سے حضرت عیسیٰ نہ ہو سکا

اللہ رے روانیٔ چشم شب فراق
یوں تیز رو کبھی کوئی دریا نہ ہو سکا

اندھیر ہے کہ موت بھی معشوق بن گئی
ہر چند چاہا رات کو مرنا نہ ہو سکا

کس وقت بہر پرسش بیمار آئے وہ
جب آنکھ سے بھی اپنی اشارا نہ ہو سکا