طے مجھ سے زندگی کا کہاں فاصلہ ہوا
ہے میرا غم کے پھول سے دامن بھرا ہوا
ہریالیوں کے واسطے آنکھیں ترس گئیں
ہر کھیت میں ملا ہمیں پتھر اگا ہوا
اڑتی ہوئی پتنگ کے مانند میں بھی ہوں
مضبوط ایک ڈور سے لیکن بندھا ہوا
ہر سمت احتجاج کی آواز مر گئی
کس خامشی کے ساتھ یہ محشر بپا ہوا
اس شہر کو فقیر کی جب بد دعا لگی
بارش ہوئی نہ پھر کوئی منظر ہرا ہوا
دیکھا ہے اس کے ساتھ بھی چل کر بہت حسنؔ
لگتا ہے وہ حسین اگر ہو رکا ہوا

غزل
طے مجھ سے زندگی کا کہاں فاصلہ ہوا
حسن نظامی