تحلیل موسموں میں کر کے عجب نشہ سا
پھیلا ہوا ہے ہر سو کچھ دن سے رت جگا سا
ملتے ہیں روز ان سے حسرت کی سرحدوں پر
رہتا ہے پھر بھی حائل کیوں جانے فاصلہ سا
برسوں کے سب مراسم توڑے ہیں اس نے ایسے
پل بھر میں ٹوٹ جائے جس طرح آئنا سا
تازہ رفاقتوں کے پر کیف سلسلوں میں
رہتا ہے دل نہ جانے اب کیوں ڈرا ڈرا سا
میری بلا سے چاہت کی لاکھ بارشیں ہوں
میں پہلے بھی تھا پیاسا میں آج بھی ہوں پیاسا
دونوں میں آج تک وہ پہلی سی تشنگی ہے
پھر وصل میں نہیں کیوں وہ لطف ابتدا سا
تنہائیوں کی زد میں رہتی ہے روح میری
اس واسطے ہوں یارو میں آج کل بجھا سا
ٹکرا گئے جو ان سے ہم راہ میں اچانک
اک داستاں ہوئی پھر وہ حادثا ذرا سا
جس پر نگاہ ٹھہری جان خیالؔ اپنی
وہ اجنبی ہے لیکن لگتا ہے آشنا سا
غزل
تحلیل موسموں میں کر کے عجب نشہ سا
رفیق خیال