تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا
کون اظہار مسلسل روک سکتا ہے ترا
قتل ہو جاتا ہے جب سورج دلوں کے دشت میں
گہری ظلمت میں معاً شعلہ لپکتا ہے ترا
نقش ابھرتے ہیں تری خوشبو کے سطح خاک پر
بے صدا گنبد میں بھی طائر چہکتا ہے ترا
ساغر گل سے ہزاروں رنگ اچھلتے ہیں ترے
اسم اعظم سبز لوحوں پر چمکتا ہے ترا
تازہ دم ہے کتنی صدیوں کا سفر کرنے کے بعد
قافلہ کب دورئ منزل سے تھکتا ہے ترا
لہلہاتا ہے دل عشرت میں روز و شب وہ نخل
جس کے برگ و شاخ میں موسم مہکتا ہے ترا
غزل
تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا
عشرت ظفر