EN हिंदी
تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا | شیح شیری
tah mein har paikar ki ek paikar ubharta hai tera

غزل

تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا

عشرت ظفر

;

تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا
کون اظہار مسلسل روک سکتا ہے ترا

قتل ہو جاتا ہے جب سورج دلوں کے دشت میں
گہری ظلمت میں معاً شعلہ لپکتا ہے ترا

نقش ابھرتے ہیں تری خوشبو کے سطح خاک پر
بے صدا گنبد میں بھی طائر چہکتا ہے ترا

ساغر گل سے ہزاروں رنگ اچھلتے ہیں ترے
اسم اعظم سبز لوحوں پر چمکتا ہے ترا

تازہ دم ہے کتنی صدیوں کا سفر کرنے کے بعد
قافلہ کب دورئ منزل سے تھکتا ہے ترا

لہلہاتا ہے دل عشرت میں روز و شب وہ نخل
جس کے برگ و شاخ میں موسم مہکتا ہے ترا