EN हिंदी
تغیرات سے کب ربط گلستاں نہ رہا | شیح شیری
taghayyuraat se kab rabt-e-gulsitan na raha

غزل

تغیرات سے کب ربط گلستاں نہ رہا

متین نیازی

;

تغیرات سے کب ربط گلستاں نہ رہا
بہار آئی تو کیا خطرۂ خزاں نہ رہا

جبیں جھکائی تو جنت خرید لی جیسے
سمجھ رہے ہیں کہ اب کوئی امتحاں نہ رہا

فضا میں گونج رہی ہیں کہانیاں غم کی
ہمیں کو حوصلۂ شرح داستاں نہ رہا

انہیں تو حشر میں بھی ہے خیال رسوائی
ہمیں خوشی ہے کوئی پردہ درمیاں نہ رہا

غم مآل غم زندگی غم دوراں
ہمارے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ رہا

ہوا پلٹتے ہی ہر زخم ہو گیا تازہ
بہار عشق کو اندیشۂ خزاں نہ رہا

متینؔ قدر ہوئی آہ کب نشیمن کی
چمن میں برق کے لائق جب آشیاں نہ رہا