تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
چھری تھی میرے لیے جو شکن تھی بستر کی
عرق عرق ہیں جو گرمی سے روز محشر کی
پناہ ڈھونڈتے ہیں میرے دامن تر کی
ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا
اگر ہوا سے بھی زنجیر ہل گئی در کی
اسی طرف ترے قرباں نگاہ شرم آلود
مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی
خرام وہ جو ہلا دے جگر فرشتوں کا
نگاہ وہ جو الٹ دے صفوں کو محشر کی
سجائی حضرت واعظ نے کس تکلف سے
متاع زہد و ورع سیڑھیوں پہ منبر کی
عبور بحر حقیقت سے جب نہیں ممکن
کنارے بیٹھ کے لہریں گنوں سمندر کی
سنے گا کون سنی جائے گی صفیؔ کس سے
تمہاری رام کہانی یہ زندگی بھر کی
غزل
تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
صفی لکھنوی