EN हिंदी
تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی | شیح شیری
taDap ke raat basar ki jo ek muhim sar ki

غزل

تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی

صفی لکھنوی

;

تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
چھری تھی میرے لیے جو شکن تھی بستر کی

عرق عرق ہیں جو گرمی سے روز محشر کی
پناہ ڈھونڈتے ہیں میرے دامن تر کی

ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا
اگر ہوا سے بھی زنجیر ہل گئی در کی

اسی طرف ترے قرباں نگاہ شرم آلود
مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی

خرام وہ جو ہلا دے جگر فرشتوں کا
نگاہ وہ جو الٹ دے صفوں کو محشر کی

سجائی حضرت واعظ نے کس تکلف سے
متاع زہد و ورع سیڑھیوں پہ منبر کی

عبور بحر حقیقت سے جب نہیں ممکن
کنارے بیٹھ کے لہریں گنوں سمندر کی

سنے گا کون سنی جائے گی صفیؔ کس سے
تمہاری رام کہانی یہ زندگی بھر کی