تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش تیرے
جب سے مکتب میں تو کہتا تھا الف بے تے ثے
یاد آتا ہے وہ حرفوں کا اٹھانا اب تک
جیم کے پیٹ میں ایک نکتہ ہے اور خالی حے
حے کی پر شکل حواصل کی سی آتی ہے نظر
نقطہ اس پر جو لگا خے ہوا یہ واہ بے خے
دال بھی چھوٹی بہن اس کی ہے جوں آتوجے
ایک پرکالہ سا بیٹا بھی ہے گھر میں ان کے
رے بھی خالی ہے اور زے پہ ہے وہ نکتہ ایک
کہ مشابہ ہے جو تل سے مری رخسارے کے
سین خالی ہے بڑی شین پہ ہیں نقطہ تین
صاد اور ضاد میں بس فرق ہے اک نقطے سے
طوے بن طرہ ہے اور ظوے پر اک نقطہ پھر
عین بے عیب ہے اور کانے میاں غین ہوے
فے پہ اک نقطہ ہے اور قاف پہ ہیں نقطہ دو
کاف بھی خالی ہے اور لام بھی خالی، یہ لے
میم بھی یوں ہی ہے اور نون کے اندر نقطہ
مفلسا بیگ ہے یہ واؤ بھی اور چھوٹی ہے
کیا خلیفہ جی یہ ہے ہے ہے نہیں سے نکلے
آگے چھٹی دو اے لو لام الف ہمزہ یے
گالیاں تیری ہی سنتا ہے اب انشاؔ ورنہ
کس کی طاقت ہے الف سے جو کہے اس کو بے
غزل
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش تیرے
انشاءؔ اللہ خاں