طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
بے حسی عشرت کردار ہوئی جاتی ہے
یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ
شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے
اور باریک کئے جاتا ہوں میں موئے قلم
تیز تر سوزن اظہار ہوئی جاتی ہے
کچھ تو سچ بول کہ دل سے یہ گراں بوجھ ہٹے
زندگی جھوٹ کا طومار ہوئی جاتی ہے
جادۂ فن سے گزرنا بھی کشاکش ہے تمام
راہ خود راہ کی دیوار ہوئی جاتی ہے
سوچ کی دھوپ میں جل اٹھنے کو جی چاہتا ہے
اپنے لفظوں سے بھی اب عار ہوئی جاتی ہے
زیست یوں شام کے لمحوں سے گزرتی ہے کبھی
خود بہ خود شرح غم یار ہوئی جاتی ہے
کم سے کم پھونک ہی دے بجھتی ہوئی راکھ میں سازؔ
آخری سانس بھی بے کار ہوئی جاتی ہے
غزل
طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
عبد الاحد ساز