تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے
خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے
پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے
مہلت ہی نہ دی گردش افلاک نے ہم کو
کیا سلسلۂ نقل مکانی سے نکلتے
اک عمر لگی تیری کشادہ نظری میں
اس تنگئ داماں کو گرانی سے نکلتے
بس ایک ہی موسم کا تسلسل ہے یہ دنیا
کیا ہجر زدہ خواب جوانی سے نکلتے
وہ وقت بھی گزرا ہے کہ دیکھا نہیں تم نے
صحراؤں کو دریا کی روانی سے نکلتے
شاید کہ سلیمؔ امن کی صورت نظر آتی
ہم لوگ اگر شعلہ بیانی سے نکلتے
غزل
تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
سلیم کوثر