تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے
یہ کیا کہ تیرے نین فلک سے لڑے رہے
ہم تھے سفر نصیب سو منزل سے جا ملے
جو سنگ میل تھے وہ زمیں میں گڑے رہے
لوگوں نے اینٹ اینٹ پر قبضہ جما لیا
ہم دم بخود مکان سے باہر کھڑے رہے
ہم کو تو جھولنا ہی تھا انصاف کے لئے
یہ کیل کیوں صلیب میں ناحق جڑے رہے
رعنائی اپنی چھینتا ہے موسموں سے اب
ماضی میں جس درخت کے پتے جھڑے رہے
جن کی جڑیں زمین کے اندر تھیں دور تک
وہ پیڑ آنکھیوں کے مقابل اڑے رہے

غزل
تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے
گلزار وفا چودھری