EN हिंदी
تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے | شیح شیری
tare hamari KHak mein bikhre paDe rahe

غزل

تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے

گلزار وفا چودھری

;

تارے ہماری خاک میں بکھرے پڑے رہے
یہ کیا کہ تیرے نین فلک سے لڑے رہے

ہم تھے سفر نصیب سو منزل سے جا ملے
جو سنگ میل تھے وہ زمیں میں گڑے رہے

لوگوں نے اینٹ اینٹ پر قبضہ جما لیا
ہم دم بخود مکان سے باہر کھڑے رہے

ہم کو تو جھولنا ہی تھا انصاف کے لئے
یہ کیل کیوں صلیب میں ناحق جڑے رہے

رعنائی اپنی چھینتا ہے موسموں سے اب
ماضی میں جس درخت کے پتے جھڑے رہے

جن کی جڑیں زمین کے اندر تھیں دور تک
وہ پیڑ آنکھیوں کے مقابل اڑے رہے