تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا
کوئی ہمارے واسطے عیسیٰ نہ ہو سکا
اتنی شدید دھوپ تھی مجھ پہ کہ عمر بھر
ابر و درخت سے کبھی سایہ نہ ہو سکا
نیندوں میں چھوڑ کر ہمیں آگے نکل گیا
ہم سے اس ایک خواب کا پیچھا نہ ہو سکا
گزرے پھر ایک بار تو دونوں کے درمیاں
وہ واقعہ جو طور پہ پورا نہ ہو سکا
دہکان غم نے خون سے سینچی زمین دل
لیکن یہ دشت دشت تھا سبزہ نہ ہو سکا
غزل
تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا
امتیاز خان