EN हिंदी
تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا | شیح شیری
taraj KHwahishon ka mudawa na ho saka

غزل

تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا

امتیاز خان

;

تاراج خواہشوں کا مداوا نہ ہو سکا
کوئی ہمارے واسطے عیسیٰ نہ ہو سکا

اتنی شدید دھوپ تھی مجھ پہ کہ عمر بھر
ابر و درخت سے کبھی سایہ نہ ہو سکا

نیندوں میں چھوڑ کر ہمیں آگے نکل گیا
ہم سے اس ایک خواب کا پیچھا نہ ہو سکا

گزرے پھر ایک بار تو دونوں کے درمیاں
وہ واقعہ جو طور پہ پورا نہ ہو سکا

دہکان غم نے خون سے سینچی زمین دل
لیکن یہ دشت دشت تھا سبزہ نہ ہو سکا