تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے
قافلہ چھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز
یاد آواز جرس رہ رہ کے تڑپا جائے ہے
خود زمانہ رخ ہمارا دیکھتا ہے ہم نہیں
جس طرف مڑتے ہیں ہم دھارا بھی مڑتا جائے ہے
سر جو گردن پر نہیں تو کیا ہتھیلی پر سہی
منزل عشق و جنوں سے یوں ہی گزرا جائے ہے
ہم کہاں ڈوبے تھے یہ کل پوچھیے گا آج تو
کچھ تلاطم سا ابھی موجوں میں پایا جائے ہے
عقل والو کچھ کہو یہ رشتۂ راز حیات
کیوں الجھتا جائے ہے جتنا کہ کھلتا جائے ہے
آ رہا ہوں دوستو ٹھہرو مگر یہ تو بتاؤ
مجھ کو کس گوشہ سے صحرا کے پکارا جائے ہے
غزل
تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
نیاز فتح پوری