EN हिंदी
تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے | شیح شیری
tar ki jhankar hi se bazm tharra jae hai

غزل

تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے

نیاز فتح پوری

;

تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے

قافلہ چھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز
یاد آواز جرس رہ رہ کے تڑپا جائے ہے

خود زمانہ رخ ہمارا دیکھتا ہے ہم نہیں
جس طرف مڑتے ہیں ہم دھارا بھی مڑتا جائے ہے

سر جو گردن پر نہیں تو کیا ہتھیلی پر سہی
منزل عشق و جنوں سے یوں ہی گزرا جائے ہے

ہم کہاں ڈوبے تھے یہ کل پوچھیے گا آج تو
کچھ تلاطم سا ابھی موجوں میں پایا جائے ہے

عقل والو کچھ کہو یہ رشتۂ راز حیات
کیوں الجھتا جائے ہے جتنا کہ کھلتا جائے ہے

آ رہا ہوں دوستو ٹھہرو مگر یہ تو بتاؤ
مجھ کو کس گوشہ سے صحرا کے پکارا جائے ہے