طاقت کے سارے زور کو خاموش کر دیا
خاموشیوں نے شور کو خاموش کر دیا
جس ڈور سے نکلتی رہی پیار کی سدا
ظالم نے ایسے ڈور کو خاموش کر دیا
سب کچھ تو ٹھیک تھا جو نظر پاؤں پر پڑی
مستی میں ڈوبے مور کو خاموش کر دیا
وہ بھیڑ تھی جو ٹوٹ پڑی اور اس جگہ
ہاتھوں میں آئے چور کو خاموش کر دیا
اکثر یہی ہوا ہے کہ جسموں کی آگ نے
جسموں کے پور پور کو خاموش کر دیا
اے دوست مے سے دور ہی رہنا کہ اس نے تو
کتنے ہی بادہ خور خاموش کر دیا
فیاضؔ ہم دیا نہیں جس کو کہ آپ نے
شب بھر جلایا بھور کو خاموش کر دیا
غزل
طاقت کے سارے زور کو خاموش کر دیا
فیاض رشک