EN हिंदी
ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا | شیح شیری
Tankon se zaKHm-e-pahlu lagta hai kankhajura

غزل

ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا

شاہ نصیر

;

ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
مت چھیڑ میرے دل کو بیٹھا ہے کنکھجورا

چمپا کلی اس کی کیوں کر خیال چھوٹے
بے وجہ دل سے آ کر لپٹا ہے کنکھجورا

وہ جنبش نگہ کیوں مارے نہ ڈنک ہر دم
تحریر سرمہ گویا کالا ہے کنکھجورا

زیب گلو ہے کنٹھی یاقوت کی ہے گھنڈی
اے شوخ یہ گریباں تیرا ہے کنکھجورا

رہتا ہے کیا تصور دن رات مجھ کو اس کا
آنکھوں میں لال سر کا پھرتا ہے کنکھجورا

طفلی میں کھیل سیکھے مجھ پر جو اب بنا کر
تنکوں سے سینگرے کے پھینکا ہے کنکھجورا

خط سیاہ درپئے ہے زلف کے نصیرؔ اب
بچھو کا چھیننے گھر نکلا ہے کنکھجورا