EN हिंदी
تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے | شیح شیری
talluqat ki duniya ka haal kya kahiye

غزل

تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے

موہن سنگھ اوبے رائے دیوانہ

;

تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے
کہ مرنا سہل ہے جینا محال کیا کہئے

انہیں جو رازق کل کو بھلا کے کرتے ہیں
گداگران زماں سے سوال کیا کہئے

ادب کی محفلوں اور دین کی مجالس میں
نہ کیف حال نہ لطف مقال کیا کہئے

حسین آج اتر آئے حسن بازی پر
یہ جوش و طرز نمود جمال کیا کہئے

حرام ہو گئی انگور و جو کی سادہ کشید
لہو غریب کا ٹھہرا حلال کیا کہئے

فسانہ ساز‌و حق آموز و جابر و رحمان
ہے پر تضاد بشر کا کمال کیا کہئے

بس ایک نقش ہے چربے اسی کے اٹھتے ہیں
فسانہ ہائے عروج و زوال کیا کہئے

تمام چیزیں ہڑپنے کے بعد بھی بھوکی
سیاست ایسی ہے لعنت مآل کیا کہئے

مزاج دہر ہے گویا مزاج عورت کا
ابھی ہے امن بھی جنگ و جدال کیا کہئے

تمام چیزیں فراواں بھی ہیں گراں بھی ہیں
ہے ایک صدق و صداقت کا کال کیا کہئے

ادیب و ناقد و نقاش و اہل رقص و غنا
چلیں خوشی سے حکومت کی چال کیا کہئے