EN हिंदी
تال سوچیں نہ سمندر سوچیں | شیح شیری
tal sochen na samundar sochen

غزل

تال سوچیں نہ سمندر سوچیں

رشید اعجاز

;

تال سوچیں نہ سمندر سوچیں
صرف اک موج منور سوچیں

شور بازار سے ہٹ کر بیٹھیں
اپنے اندر جو ہے محشر سوچیں

پس در نکلے حقارت کہ پسند
دستکیں دی ہیں تو کیوں کر سوچیں

ہم بھی ساکت ہیں جمود ان پر بھی
خود کو بت سمجھیں کہ آذر سوچیں

ہم کہاں اور کہاں چور قدم
شہہ کوئی پائیں تو کھل کر سوچیں

خوب ہے یہ بھی وطیرہ اعجازؔ
خشک ذہنوں میں رہیں تر سوچیں