تاکید کرو زمزمہ سنجان چمن کو
بے چین ہوں دل جن سے وہ نغمے نہ الاپو
اے اہل وطن! کھاؤ پیو شوق سے لیکن
کھیلو نہ کبھی سر سے کبھی منہ سے نہ بولو
ہر طائر پراں کے پر و بال کرو قینچ
ہر بندۂ آزاد کو شیشے میں اتارو
بن جائے روایت نہ کہیں حلقۂ زنجیر
ہر رفتہ کو موجود کی میزان پہ تولو
پرسان پریشانی انساں نہیں کوئی
قسمت کی گرہ ناخن تدبیر سے کھولو
کیوں صرف نظر کرتے ہو انجام سے اپنے
قدرت تو طرفدار کسی کی نہیں لوگو!
ہم تو ہیں فقط دل زدۂ ذوق تماشا
رم ہم سے عبث کرتے ہو اے زہرہ نگاہو!
ہم چشم سحر، دیدۂ شب، دست صبا ہیں
پردہ تو ہے نا محرموں سے لالہ عذارو!
وہ قوم کہ نام اس کا مسلمان ہے خالدؔ
کیا یاد ہے شرط انتم الاعلون کی اس کو؟
غزل
تاکید کرو زمزمہ سنجان چمن کو
عبد العزیز خالد