تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
مطلب یہ ہے کہ دور سے دیکھا کرے کوئی
آتے ہی تیرے وعدۂ فردا کا اعتبار
گھبرا کے مر نہ جائے تو پھر کیا کرے کوئی
وہ جلوہ بے حجاب سہی ضد کا کیا علاج
جب دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
کہتے ہیں حسن ہی کی امانت ہے درد عشق
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
خالی ہے بزم ذوق طلب اہل ہوش سے
اتنا نہیں کہ تیری تمنا کرے کوئی
وہ درد دے کہ موت بھی جس کی دوا نہ ہو
اس دل کو موت دے جسے اچھا کرے کوئی
فانیؔ دعائے مرگ کی تکرار کیا ضرور
غافل نہیں کہ ان سے تقاضا کرے کوئی
غزل
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
فانی بدایونی