طائر خوش رنگ کو بے بال و پر دیکھے گا کون
اس کو خود اپنے لہو میں تر بہ تر دیکھے گا کون
آج تو ہر شخص ہے سائے سے تیرے شاد کام
خشک ہونے پر تجھے کل اے شجر دیکھے گا کون
یہ تو سچ ہے کچھ جزیرے ہیں ادھر بے حد حسیں
ان کو لیکن بحر خوں میں پیر کر دیکھے گا کون
توڑ کر آخر ہوس کا یہ طلسم زر نگار
عہد نو کا اژدھائے ہفت سر دیکھے گا کون
اے فصیل شہر جاناں اک ذرا تو ہی بتا
میں یہاں پر جان تو دے دوں مگر دیکھے گا کون
ہو گئی بینائی تو سب اس کی دیواروں میں جذب
ان کے گھر کو دیکھ کر اب اپنا گھر دیکھے گا کون
کچھ تماشائی بھی لازم ہیں سر مقتل طفیلؔ
وہ نہیں ہوں گے تو قاتل کا ہنر دیکھے گا کون

غزل
طائر خوش رنگ کو بے بال و پر دیکھے گا کون
طفیل احمد مدنی