تعبیر کو ترسے ہوئے خوابوں کی زباں ہیں
تصویر کے ہونٹوں پہ جو بوسوں کے نشاں ہیں
آنکھوں میں تر و تازہ ہیں جس عہد کے منظر
ہم لوگ اسی عہد گزشتہ میں جواں ہیں
نیلام ہمارا بھی اسی شرط پہ ہوگا
ہم رونق بازار ہیں جیسے ہیں جہاں ہیں
دل تھا کہ کسی ساعت پر خوں میں ہوا سرد
آنکھیں ہیں کہ اب تک تری جانب نگراں ہیں
دیوار پہ لکھا ہے کہ اب صبح نہ ہوگی
اور سایۂ دیوار میں ہم رقص کناں ہیں

غزل
تعبیر کو ترسے ہوئے خوابوں کی زباں ہیں
عباس رضوی