EN हिंदी
تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے | شیح شیری
tabani-e-ruKH le kar tum samne jab aae

غزل

تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے

سلام سندیلوی

;

تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے
محسوس ہوا ایسا ہم چاند سے ٹکرائے

برکھا کا یہ موسم بھی کس درجہ سہانا ہے
آہوں کی ادھر بدلی زلفوں کے ادھر سائے

آگاہ نہ تھے پہلے ہم عشق کی راہوں سے
پھولوں کے اشاروں پر کانٹوں میں چلے آئے

ہونٹوں کے تبسم پر سو بجلیاں رقصاں ہیں
بکھراتے ہیں وہ شعلے دامن کوئی پھیلائے

آلام زمانہ سے بدلا ہوں میں کس حد تک
میں اپنے کو پہچانوں آئینہ کوئی لائے

اے دوست مجھے تجھ سے اک دور کی نسبت ہے
تاریک مری راتیں گیسو ترے کجلائے

یہ گل بھی ہیں داغ دل ہے فرق سلامؔ اتنا
کچھ رہ گئے گلشن میں کچھ دل میں چلے آئے