تاب نظر سے ان کو پریشاں کیے ہوئے
آئینۂ جمال کو حیراں کیے ہوئے
جلتے رہے چراغ کی صورت تمام عمر
لیکن فضائے غم کو فروزاں کیے ہوئے
تیری گلی میں جشن بہاراں ہے بے خبر
آئے ہیں لوگ دل کو گلستاں کیے ہوئے
ساقی بس ایک جام سکوں چاہئے مجھے
حالات زندگی ہیں پریشاں کیے ہوئے
ہم بھی شریک جشن بہاراں ہوئے تو ہیں
تار نظر کو صرف گریباں کیے ہوئے
گزرا ہوں زندگی کی ہر اک کشمکش سے میں
دل کو حریف گردش دوراں کیے ہوئے
پاس وفا نے خود ہی گریباں کو سی دیا
ہم بھی چلے تھے چاک گریباں کیے ہوئے
دیر و حرم کے لوگ ہمیں آ کے دیکھ لیں
ہم ہیں طواف کوچۂ جاناں کیے ہوئے
بیٹھے ہیں اجنبی کی طرح ہم بھی اے مشیرؔ
خود کو شریک بزم حریفاں کیے ہوئے
غزل
تاب نظر سے ان کو پریشاں کیے ہوئے
مشیر جھنجھانوی