تاب دل صرف جدائی ہو چکی
یعنی طاقت آزمائی ہو چکی
چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی
آگے ہو مسجد کے نکلی اس کی راہ
شیخ سے اب پارسائی ہو چکی
درمیاں ایسا نہیں اب آئینہ
میرے اس کے اب صفائی ہو چکی
ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے
اتنے ہی میں آشنائی ہو چکی
بیچ میں ہم ہی نہ ہوں تو لطف کیا
رحم کر اب بے وفائی ہو چکی
آج پھر تھا بے حمیت میرؔ واں
کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی
غزل
تاب دل صرف جدائی ہو چکی
میر تقی میر