تا حشر ضد میں صبح کی آتی رہے گی شام
گل ہوں گے جو چراغ جلاتی رہے گی شام
ہر شام لے کے آئے گی پیغام صبح کا
ہر صبح جل کے دھوپ میں لاتی رہے گی شام
شمعیں جلا کے شام سے نفرت کریں گے لوگ
لوگوں کو پیار کرنا سکھاتی رہے گی شام
تزئین چشم ہو نہ ہو کاجل کی دھار سے
بے وقت بھی جہان میں آتی رہے گی شام
جیسے حنائی ہاتھ ہو ڈوبا شراب میں
منظر ہمیں وہ روز دکھاتی رہے گی شام
جانے لگیں گی باغ سے جب دن کی رانیاں
راتوں کی رانیوں کو جگاتی رہے گی شام
تھک کر گرے گا تو یہ سنبھالے گی گود میں
سورج کو ٹوٹنے سے بچاتی رہے گی شام
انساں تو پھینک دیں گے لباس حیا کو دور
ان کا ہر اک گناہ چھپاتی رہے گی شام
کشت فلک میں ڈال کے خون شفق کی کھاد
تاروں کی ایک فصل اگاتی رہے گی شام
کرنیں کچھ آفتاب کی جاذبؔ سمیٹ کر
موتی ردائے شب پہ سجاتی رہے گی شام
غزل
تا حشر ضد میں صبح کی آتی رہے گی شام
نثار ترین جاذب