تا ابد حاصل ازل ہوں میں
یا فقط لقمۂ اجل ہوں میں
خود کو بھی خود سے ماورا چاہوں
اپنی ہستی میں کچھ خلل ہوں میں
میرا ہر مسئلہ اسی کا ہے
اس کے ہر مسئلے کا حل ہوں میں
اس کی آنکھوں کا آئینہ خانہ
جھیل میں جیسے اک کنول ہوں میں
گنگناتی رہی جسے پنہاںؔ
مجھ کو لگتا ہے وہ غزل ہوں میں
غزل
تا ابد حاصل ازل ہوں میں
ڈاکٹر پنہاں