صورتوں کے شہر میں روزن ہی روزن دیکھ کر
گھر میں آ بیٹھے کشادہ گھر کا آنگن دیکھ کر
لوگ ڈالے ہیں بدن پر فکر کے رنگیں غلاف
آئنوں میں شخصیت کا کھردرا پن دیکھ کر
بد گماں احباب ہوتے ہیں تو ہونے دیجئے
بات کیوں ہو فکر و فن کی رنگ و روغن دیکھ کر
ہم چلے تھے خواہشوں کا تجزیہ کرنے مگر
رک گئے ہیں این و آں کی تیز دھڑکن دیکھ کر
اب تو ویرانہ ہی ویرانہ ہے شہر درد میں
کتنے دن رویا کئے خوابوں کا مدفن دیکھ کر
ذہن تم کو جس طرف لے جائے اے تنویرؔ جاؤ
کیا کرو گے مسلک شیخ و برہمن دیکھ کر
غزل
صورتوں کے شہر میں روزن ہی روزن دیکھ کر
تنویر سامانی