صورت حال دل بدلتا ہے
کوئی رہ رہ کے ہاتھ ملتا ہے
دھوپ سے کیا شکایتیں کہ بدن
چاندنی رات میں بھی جلتا ہے
نیند ٹوٹی ہے کس کی آہٹ سے
سطح دل پر کوئی تو چلتا ہے
اب کہاں جائے موسم ہجراں
میرے آنگن میں آ نکلتا ہے
ایسا لگتا ہے بچپنا اب بھی
میرا آنچل پکڑ کے چلتا ہے

غزل
صورت حال دل بدلتا ہے
نرجس افروز زیدی