EN हिंदी
سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں | شیح شیری
suraj nikalne sham ke Dhalne mein aa rahun

غزل

سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں

ضیاء المصطفیٰ ترکؔ

;

سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں
میں کیا عجب رتوں کے بدلنے میں آ رہوں

بارش برسنے دھوپ کے کھلنے میں ہوں شریک
شاخوں پہ کونپلوں کے نکلنے میں آ رہوں

بہنے لگوں کناروں کو چھوتے ہوئے کہیں
دریا کے لہر لہر مچلنے میں آ رہوں

رک جاؤں ٹہنیوں کو بلا کر ذرا سی دیر
پھر سے ہوا چلے تو میں چلنے میں آ رہوں

گندم کی بالیوں میں بنوں ذائقہ کہیں
مٹی کو چوموں پھولنے پھلنے میں آ رہوں

تجھ میں سما نہ جاؤں اگر میرا بس چلے
یہ دل دھڑکنے سانس کے چلنے میں آ رہوں

ہو جاؤں ترکؔ طاق ہی اس خواب گاہ کا
لو کی طرح چراغ کے جلنے میں آ رہوں