سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں
میں کیا عجب رتوں کے بدلنے میں آ رہوں
بارش برسنے دھوپ کے کھلنے میں ہوں شریک
شاخوں پہ کونپلوں کے نکلنے میں آ رہوں
بہنے لگوں کناروں کو چھوتے ہوئے کہیں
دریا کے لہر لہر مچلنے میں آ رہوں
رک جاؤں ٹہنیوں کو بلا کر ذرا سی دیر
پھر سے ہوا چلے تو میں چلنے میں آ رہوں
گندم کی بالیوں میں بنوں ذائقہ کہیں
مٹی کو چوموں پھولنے پھلنے میں آ رہوں
تجھ میں سما نہ جاؤں اگر میرا بس چلے
یہ دل دھڑکنے سانس کے چلنے میں آ رہوں
ہو جاؤں ترکؔ طاق ہی اس خواب گاہ کا
لو کی طرح چراغ کے جلنے میں آ رہوں
غزل
سورج نکلنے شام کے ڈھلنے میں آ رہوں
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ