سورج کی سنہری کرنوں سے تابندہ رخ عالم نہ سہی
آثار سحر تو پیدا ہیں کم ظلمت شام غم نہ سہی
آداب چمن سے ناواقف زنجیر بپا دیوانوں کو
تعمیر چمن کی فکر تو ہے تخریب چمن کا غم نہ سہی
ہاں یاد ہمیں بھی کر لینا آسائش منزل سے پہلے
اے قافلے والو غم نہ کرو اے منزل جاناں ہم نہ سہی
انجام سفر کیا ہونا ہے یہ فیصلہ مستقبل دے گا
میدانوں پہ وحشت آج بھی ہے راہوں کے وہ پیچ و خم نہ سہی
مایوس مجیبؔ اتنا بھی نہ ہو لغزش تو گناہ آدم ہے
منزل کی طلب تو محکم ہے ادراک سفر محکم نہ سہی
غزل
سورج کی سنہری کرنوں سے تابندہ رخ عالم نہ سہی
مجیب خیر آبادی