سورج اور مہتاب بکھرتے جاتے ہیں
جینے کے اسباب بکھرتے جاتے ہیں
اطلس اور کم خواب بکھرتے جاتے ہیں
گویا کہ احباب بکھرتے جاتے ہیں
قطرہ قطرہ نیند پگھلتی رہتی ہے
ریزہ ریزہ خواب بکھرتے جاتے ہیں
دلدل اتنی پھیل گئی ہے رستے میں
اب تو سب اعصاب بکھرتے جاتے ہیں
اک انبار آب و گل ہے یہ پیکر
ہالے اور گرداب بکھرتے جاتے ہیں
غزل
سورج اور مہتاب بکھرتے جاتے ہیں
ندیم ماہر